حکومت نے صرف پانچ تابوت دیے باقی میں نے اپنی جیب سے خریدے مجھ پر پیسے لینے کا الزام غلط ہے صرف سامان کی قیمت لی تھی۔ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار محمد عارف

حکومت نے صرف پانچ تابوت دیے باقی میں نے اپنی جیب سے خریدے مجھ پر پیسے لینے کا الزام غلط ہے صرف سامان کی قیمت لی تھی۔ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار محمد عارف

کوئٹہ: کوئٹہ دھماکے میں شہید ہونے والے باپ بیٹے کی میتوں کے بدلے پیسے لینے کے الزامات پر ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار محمد عارف کا ویڈیو بیان سامنے آگیا ہے، جس میں انہوں نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے وضاحت دی ہے کہ رقم صرف سامان کی قیمت کے طور پر وصول کی گئی تھی۔ محمد عارف کے مطابق وہ گزشتہ 20 سال سے ایدھی فاؤنڈیشن میں بطور رضاکار خدمات انجام دے رہے ہیں اور لاوارث، مسخ شدہ یا شناخت نہ ہونے والی لاشوں کے غسل، کفن اور تدفین کے انتظامات کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 30 ستمبر کو ہونے والے دھماکے میں آٹھ سے دس افراد شہید ہوئے تھے، تاہم حکومت کی جانب سے صرف پانچ تابوت فراہم کیے گئے محمد عارف کے مطابق پانچوں تابوت استعمال ہو چکے تھے، اور جب رات گئے باپ بیٹے کی لاشوں کی شناخت ہوئی تو سول ہسپتال انتظامیہ نے انہیں رات ایک بجے کے بعد گھر سے بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ اُس وقت ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس تابوت اور کفن دستیاب نہیں تھے، اس لیے مجبوری میں بازار سے خریدنے پڑے ایک تابوت چھ ہزار روپے کا آتا ہے جبکہ میری تنخواہ صرف دس ہزار روپے ہے، اتنی قلیل تنخواہ میں دو تابوت خریدنا ممکن نہیں تھا،‘‘ محمد عارف نے اپنے بیان میں کہا۔ ان کے مطابق انہوں نے ورثاء کو مزید پریشانی سے بچانے کے لیے خود بازار سے دو تابوت چھ چھ ہزار روپے کے، دو کفن تین تین ہزار روپے کے اور دو پلاسٹک کور پانچ پانچ سو روپے کے خریدے لاشوں کو صاف کر کے تابوت میں رکھا اور ورثاء کے حوالے کیا، جس کے بعد سامان کی قیمت وصول کی۔ محمد عارف نے کہا کہ ان پر پیسہ لینے کے الزامات بے بنیاد ہیں، انہوں نے صرف اخراجات کی رقم لی بازار سے تابوت اور کفن کی قیمت معلوم کر لیں، اگر میں نے ایک روپیہ بھی زیادہ لیا ہو تو سزا دینے کو تیار ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ایدھی رضاکار کا کہنا تھا کہ فاؤنڈیشن صرف لاوارث لاشوں کے لیے کفن و تابوت مفت فراہم کرتی ہے، جبکہ جن کے ورثاء موجود ہوں ان سے سامان کی لاگت وصول کی جاتی ہے یا وہ خود خرید کر لاتے ہیں۔ محمد عارف نے مزید کہا کہ شہداء کے ورثاء کو تابوت اور کفن فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی، تاہم حکومت نے یہ بوجھ ایدھی فاؤنڈیشن پر ڈال دیا۔