کراچی، جو روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے، آج اپنی ہی سڑکوں پر اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی شاہراہیں، بے ترتیب ٹریفک، بے قابو گاڑیاں اور قانون شکنی کی روش نے اس شہر کے حسن کو داغ دار کر دیا ہے۔ روزانہ اوسطاً دو قیمتی جانیں سڑکوں پر ضائع ہو جاتی ہیں — ایک موٹرسائیکل سوار اور ایک بے گناہ پیدل چلنے والا۔ یہ صرف حادثے نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویے اور نظام کی کمزوریوں کا نوحہ ہیں۔ ایسے میں ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کی آواز امید کی کرن اور اصلاح کا پیغام بن کر ابھری ہے۔
ملیر بار کی جانب سے ٹریفک کے نظام کی بہتری پر ایک اہم تقریب منعقد کی گئی جس میں ڈی آئی جی ٹریفک کراچی پیر محمد شاہ اور دیگر افسران کے ساتھ ساتھ ملیر بار کے جنرل سیکریٹری ایاز چانڈیو سمیت وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ شمولیت اس بات کا ثبوت تھی کہ ٹریفک کے مسائل صرف پولیس یا حکومت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مشترکہ مسئلہ ہیں۔
اس موقع پر پیر محمد شاہ نے جو اعلان کیا، وہ کراچی کے باسیوں کے لیے ایک نئی صبح کی نوید ہے۔ "اسمارٹ ٹریفک مینجمنٹ" اب محض ایک منصوبہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی بنیاد شفافیت اور جدید ٹیکنالوجی پر رکھی جا رہی ہے۔ اب اہلکار نہ گاڑیاں روکیں گے، نہ چالان کے نام پر شہریوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالیں گے۔ قانون توڑنے والے کو براہِ راست ایپ کے ذریعے ای-چالان موصول ہوگا۔ یہ نظام صرف ٹریفک نہیں بلکہ ایک ذہنیت کو بھی بدلنے جا رہا ہے — کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
پیر محمد شاہ کا یہ کہنا دل کو چھو لینے والا ہے کہ "انسانی جان سب سے قیمتی ہے۔" کراچی میں سڑکوں پر روزانہ بکھرتے لہو کو روکنے کے لیے سخت فیصلے ناگزیر ہیں۔ اب ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل نہیں چلے گی، بائیک ضبط ہوگی اور ہیلمٹ لانے کے بعد ہی واپس ملے گی۔ یہ سختی نہیں، بلکہ زندگی بچانے کی ضمانت ہے۔ اگر ایک ہیلمٹ ایک جان کو بچا سکتا ہے تو یہ اقدام ہزاروں خاندانوں کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے۔
70 لاکھ گاڑیاں اور صرف 5 ہزار اہلکار — یہ توازن کسی بھی نظام کے لیے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر بڑی گاڑی میں ٹریکر نصب کیا جا رہا ہے تاکہ رفتار اور حادثات کی مکمل نگرانی ہو۔ یہ قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی محض پاکستان کا شہر نہیں، بلکہ دنیا کے بڑے شہروں کے برابر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام لاہور نہیں بلکہ سنگاپور اور دبئی جیسے شہروں کی طرز پر ایک جدید انقلاب کا آغاز ہے۔
ایک وقت تھا جب لاہور کراچی کے ٹریفک نظام کی مثال دیا کرتا تھا۔ آج حالات الٹ ہیں۔ لیکن پیر محمد شاہ کا عزم ہے کہ اب کراچی وہ مقام دوبارہ حاصل کرے گا جہاں سے دوسرے شہر سبق لیں گے۔ یہ عزم محض ایک افسر کا نہیں، بلکہ ایک پورے شہر کی تقدیر بدلنے کی خواہش ہے۔
کراچی کا ٹریفک محض ایک انتظامی معاملہ نہیں، یہ انسانی زندگیاں بچانے کا سوال ہے۔ پیر محمد شاہ نے جو وژن دیا ہے، وہ محض کاغذی اعلان نہیں بلکہ ایک عملی منصوبہ ہے۔ اگر یہ نظام حقیقت میں ڈھل گیا تو کراچی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے شہروں کے لیے ایک رول ماڈل ہوگا۔ اب فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ہم اس نئے نظام کا ساتھ دیں گے؟ یا پرانے طریقوں، رشوت اور لاپرواہی کے اندھیروں میں ہی جییں گے؟ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا تو ہر روز سڑکوں پر بکھرتا لہو ہم سے یہی سوال کرتا رہے گا: "کیا ہماری زندگیاں اتنی سستی تھیں؟"
0 تبصرے