پاکستان کواشرافیہ اور مفت خور طبقے نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے،ملک محمدبوستان

روپیہ مضبوط پاکستان کی علامت ہے کہ ہم اپنے روپے پر اعتماد کرنا ہوگا،چیئرمین کرنسی ایکس چینج

پاکستان کواشرافیہ اور مفت خور طبقے نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے،ملک محمدبوستان

کراچی: چیئرمین کرنسی ایکس چینج کمپنیز آف پاکستان ملک محمدبوستان نے کہا ہے کہ پاکستان کو اشرافیہ اورمفت خور طبقے نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے اور انہوں نے ملکی خزانے کو "مال مفت دل بے رحم "سمجھ لیا ہے،ملک میں مفت خور طبقے نے پچھلے سال بجلی،گیس،گاڑیوں،پیٹرول،گھر،ہوائی جہاز اور ریلوے کے ٹکٹس، سیرسپاٹے پر39کھرب روپے خرچ کئے جبکہ اس سال کا ڈیٹا بتارہا ہے کہ58کھرب کا خرچہ ہے،اتنی وسیع فالتواخراجات کرکے پاکستان کیسے ترقی کرسکتا ہے۔ ملک محمدبوستان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں پہلے ایک کروڑ افراد3ڈالر(ایک ہزار روپے)روزانہ کماکر ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے لیکن ملک میں غربت بڑھ جانے سے اب یہ تعداد4کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور ان لوگوں کو ایک وقت کاہی کھاناملتا ہے ،پاکستان کی آدھی آبادی1200سے 1500روپے(4ڈالر سے5ڈالر) روزانہ کماتی تھی اور پورے ملک کی آدھی آبادی کوبمشکل دووقت کا کھانا مل پاتا ہے، غربت کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں افرادکے جسم میں صرف جان ہی باقی ہے۔ملک بوستان نے کہا کہ ملکی خزانے کو بے دردی سے خرچ کرنے والوں کو صرف الاﺅنس دیا جائے اور انہیں مفت عیش نہ کرایا جائے تاکہ جب وہ خود بجلی،گیس کے بل بھریں اور پیٹرول خریدیں تو انہیں پتہ چلے کہ جیب سے خرچ کیسا ہوتا ہے۔ ملک محمدبوستان نے مزید کہا کہ ملکی معیشت کو سدھارنے کی جوکوششیں ہورہی ہیں وہ قابل تحسین ضرور ہیں لیکن اخراجات پر قابو پانا ضروری ہے، چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ،اسپیکر اورڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی کی تنخواہوں میں600سے ایک ہزار فیصد تک اضافہ کرنا،ایف بی آر افسران کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملک میں ایک بھیانک مذاق ہی ہے۔ڈالر کی قیمت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پہلے ڈالر300یا 400 روپے تک پہنچنے کی باتیں ہورہی تھیں لیکن اب ڈالر مستحکم ہے اور280سے285روپے کے درمیان ہی ہے،ہماری معیشت ایکس چینج ریٹ کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے پٹری پرآئی ہے مضبوط روپیہ مضبوط پاکستان کی علامت ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم اپنے روپے پر اعتماد نہیں کرتے جبکہ ہمیں روپیہ مضبوط بنانا ہوگا،ہمارے ڈیڑھ کروڑ سے بھی زائد پاکستانی اوورسیز میں کام کرتے اور تقریباً9ارب ڈالرکماتے ہیں لیکن اس میں سے وہ صرف تقریباً4ارب سے ساڑھے4ارب ڈالر پاکستان بھیج رہے ہیں اور باقی ڈالر دبئی یا دوسرے ممالک میں رکھ لیتے ہیں،اگر یہ ڈالر پاکستان آئیں اور پاکستانی خزانے کو بے دریغ خرچ نہ کیا جائے ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔