ستائیسویں آئینی ترمیم — مجسٹریٹ سسٹم کی واپسی کا منصوبہ: اختیارات دوبارہ بیوروکریسی کے پاس؟

ذوالقرنین حیدر

ستائیسویں آئینی ترمیم — مجسٹریٹ سسٹم کی واپسی کا منصوبہ: اختیارات دوبارہ بیوروکریسی کے پاس؟

ملک میں حالیہ دنوں ستائیسویں آئینی ترمیم پر بحث زور پکڑ چکی ہے۔ کہیں آرٹیکل 243 کی تبدیلی زیرِ غور ہے تو کہیں صوبوں کے اختیارات محدود کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ مگر اس ترمیم کا سب سے اہم اور متنازع پہلو مجسٹریٹ نظام کی واپسی ہے—ایک ایسا نظام جو ہمیں براہِ راست 1860 کے برطانوی نوآبادیاتی ماڈل کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو پولیس سمیت تمام انتظامی اداروں پر غیر معمولی اختیار حاصل تھا—ایک طرح سے مقامی "وائسرائے"۔ وقت کے ساتھ حالات بدلے اور مشرف دور میں 2002 کا پولیس آرڈر نافذ ہوا، جس نے اس نظام کو ختم کرکے پولیس کو نسبتاً بااختیار کیا، اگرچہ اب تک یہ آرڈر مکمل طور پر مؤثر انداز میں نافذ نہیں ہو سکا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پولیس نے دہشت گردی، امن و امان اور عوامی احتجاج جیسے چیلنجز میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نئے ادارے قائم ہوئے، اختیارات تقسیم ہوئے، روزگار کے مواقع بڑھے اور عوام کو کئی معاملات میں سہولت میسر آئی۔ لیکن مجوزہ ترمیم کے بعد منظر نامہ یکسر بدل جائے گا: پولیس آرڈر 2002 ختم ہو جائے گا بنائے گئے نئے ادارے تحلیل کرنا ہوں گے عدلیہ کے اختیارات محدود ہو کر ایگزیکٹو کے ماتحت چلے جائیں گے یعنی ایک ایسی صورتحال جس میں حکمرانی شخصی فیصلوں کے تابع ہو جائے گی — "بادشاہی طرز حکومت" کی طرف واپسی۔ اگر یہ نظام واپس آیا تو سپیشلائزیشن کا موجودہ ماڈل متاثر ہو کر ملک دوبارہ جنرلائزڈ بیوروکریٹک سسٹم کی گرفت میں چلا جائے گا۔ عدلیہ اور پولیس کی خودمختاری کو شدید دھچکا لگے گا، اور براہِ راست عوام کے حقوق متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر 3 MPO جیسے آرڈرز کے تحت کسی شخص کو صرف "ناپسندیدگی" پر حراست میں رکھا جا سکتا ہے — وہی سوچ جو برطانوی راج میں عام تھی۔ پنجاب کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں پہلے ہی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے بجائے سیکریٹریز کے پاس مرکوز کر دیے گئے ہیں، اور اگر یہ آئینی تبدیلی منظور ہو جاتی ہے تو مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کا پورا بیانیہ غیر مؤثر ہو جائے گا۔ دنیا کے بیشتر ممالک بشمول برطانیہ اس نظام کو ترک کر چکے ہیں، جبکہ پاکستان ایک بار پھر اسی فرسودہ ڈھانچے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اصل مسئلہ صرف نظام کی بحالی نہیں — اس ذہنیت کی واپسی ہے جو عوامی خدمت کے بجائے طاقت کے ارتکاز کو ترجیح دیتی ہے۔ مجوزہ تبدیلی اگر نافذ ہوئی تو: پولیس دوبارہ مجسٹریٹ کے ماتحت ہو جائے گی عدلیہ کا توازن بگڑ جائے گا بنیادی شہری حقوق متاثر ہوں گے اور فیصلہ سازی عوامی مفاد سے ہٹ کر طاقتور بیوروکریسی کے ہاتھ میں چلی جائے گی مختصر یہ کہ ستائیسویں آئینی ترمیم محض قانونی تبدیلی نہیں — اختیارات کی اونچی سطح پر دوبارہ مرکزیت اور جمہوری ڈھانچے کی کمزوری کا خدشہ ہے۔